مہر خبررساں ایجنسی نے بھارتی نیوز ایجنسی اردو نیوز 18 کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ شہدائے کربلا کی تعلیمات روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ کربلا کے میدان میں حق و باطل کا جو معرکہ حضرت امام حسینؑ اور یزیدی فوج کے بیچ ہوا تھا اس میں حق کی فتح ہوئی اور باطل سر نگوں ہوا۔ دین حق کے لئے حضرت امام حسینؑ نے اپنے بہتر لوگوں کے ساتھ جام شہادت نوش فرمانا پسند کیا، لیکن باطل کے سامنے سرنگوں نہیں ہوئے۔ دین حق اور انسانیت کے لئے دی گئی عظیم قربانی کی یاد میں ہی ماہ محرم میں کثرت سے مجالس کا انعقاد کیا جاتا ہے اور یوم عاشورہ کے موقعہ پر جلوس نکال کر شہدائے کربلا سے اپنی سچی عقیدت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ شہدائے کربلا کی قربانیوں کو یاد کرنے والوں میں نہ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ راجدھانی بھوپال میں سبھی قوموں کے لوگ پیش پیش نظر آئے۔
ڈاکٹر رضی الحسن حیدری نے اس موقع پر کہا جب سے دنیا قائم ہوئی ہے معرکہ بہت سے ہوئے ہیں لیکن کربلا کے میدان میں جو عظیم قربانی حضرت امام حسین علیہ السلام نے شیرخوار بچوں کے ساتھ پیش کی ہے اس کی نظیر دنیا میں کہیں نہیں ہے۔ یزید اس وقت کا سب سے بڑا دہشت گرد تھا وہ چاہتا تھا کہ امام حسینؑ اس کے ہاتھ پر بیعت کرلیں اور وہ ان کے قدموں میں ہیرے جواہرات سب نیچھاور کرنے کو تیار تھا مگر دین حق کے لئے امام حسین علیہ السلام نے سب کچھ ٹھوکروں میں رکھا اور اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے دنیا کو بتا دیا کہ حق کے لئےقربانی کیسے دی جاتی ہے اور باطل کتنی بھی بڑی تعداد میں ہو اس سے کبھی گھبرانہ نہیں چاہیئے۔
انہوں نے کہا کہ میں یہاں پر آپ کو بتاتا چلوں کہ جب مہا تما گاندھی نے شہدائے کربلا کی تعلیمات کو پڑھا تو اس سے اس حد تک متاثر ہوئے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی تعلیمات کو اپنے سینے سے لگایا اور کہا کہ جس طرح سے کربلا کے میدان میں امام حسین کے بہتر جانثار تھے اگر ایسے لوگ مجھے مل جائیں تو میں ہندستان کو انگریزوں کی غلامی سے چوبیس گھنٹے میں آزاد کرا سکتا ہوں۔ اور یہی نہیں آج ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی نے کربلا کے شہیدوں کے تئیں جو اپنی عقیدتوں کا نذرانہ پیش کیا ہے وہ اہمیت کا حامل ہے۔
پنڈت امبریش ترپاٹھی کہتے ہیں کہ پیارے بنی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ٹھندی ہوائیں ہندوستان سے آئیں اور کربلا کے میدان میں امام حسینؑ یزیدی فوج سے جو راستہ مانگا وہ دنیا کے کسی اور ملک کے لئے نہیں بلکہ ہندستان کے لئے تھا۔ اگر امام حسینؑ ہندستان آگئے ہوتے تو ہم ہندستانیوں کی قسمت سنور جاتی ۔ میں حسینی برہمن ہوں ۔ ہمارے اجداد امام حسینؑ کی مدد کے لئے چالیس ہزار کا لشکر لے کر کربلا کے لئے نکلے تھے، مگر افسوس کہ ان کے وہاں پہنچنے سے پہلے امام حسین علیہ السلام اور ان کے عزیز وں کی شہادت ہو چکی ہے۔ ہمارے خاندان کو یہ سعادت حاصل ہے کہ ہم اپنے نام کے ساتھ حسینی برہمن لگاتے ہیں اور اسی میں ہماری نجات ہے۔
جیوتی اگروال کہتی ہیں کہ ہم سال بھر اس دن کا انتظار کرتے ہیں۔ تعزیہ تیار کرتے ہیں اور ہمارا پورا گھر اس میں شامل ہوتا ہے۔ وہیں عریبہ زیدی کہتی ہیں کہ جس نے بھی مقصد کربلا کو سمجھ لیا اس کی زندگی سنور گئی ۔ مقصد کربلا میں دین حق کو بچانے کی قربانی تھی۔ وہ دین حق جو امام حسینؑ کے نانا حضرت محمد مصطفی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ نے دیا تھا۔ کربلا کا واقعہ زندگی کے ہر شعبہ میں انسانوں کی نمائندگی کرتا ہے ۔ یہاں میں اس بات کو ضرور کہنا چاہوں گی کہ جس طرح سے عشرہ محرم میں مجالس کا انعقاد کیا جاتا ہے اور شہدائے کربلاکی تعلیمات کو یاد کیا جاتا ہے اس سلسلہ کو سال بھر تک جاری رکھنا چاہئے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے مستفیض ہوسکیں۔
آپ کا تبصرہ